Saturday 3 February 2024

آج بدلا ہوا انداز خود آرائی ہے

  آج بدلا ہوا اندازِ خُود آرائی ہے

حُسنِ رنگیں کا ہر اک شخص تمنّائی ہے

دیکھ لیتا ہے جو تجھ کو وہ سنبھلتا ہی نہیں

اک قیامت، ارے ظالم تیری انگڑائی ہے

کل جو کرتے تھے بہت مجھ سے وفا کی باتیں

آج غیروں سے بہت ان کی شناسائی ہے

عزم سچّا ہے تو گِر جائے گی کٹ کر اک دن

وقت نے پاؤں میں زنجیر جو پہنائی ہے

آج کے دور میں بے مول ہے انساں کا لہو

ہر طرف ظُلم کا بازار ہے رُسوائی ہے

مجھ کو ہوتا ہے گماں کالی گھٹا کا اصغر

اس نے جب زُلف کبھی چہرے پہ بکھرائی ہے


اصغر علی

No comments:

Post a Comment