Saturday, 3 February 2024

یہ سردیوں کے شروع میں اکثر ہوا میں خنکی

وہ اب کہاں ہے


یہ سردیوں کے شروع میں اکثر

ہوا میں خُنکی یہ بوندا باندی

تمہاری یادوں کو لا کے آنکھیں 

بھگو کے کہتی ہیں؛ تم یہیں ہو

میں ایک دم سے یقین کر کے 

کبھی ہوا سے کبھی برستی وہ ہلکی بارش سے پوچھتا ہوں

کہ جس کے ہونے کا یہ سماں تم بنا رہے ہو

وہ اب کہاں ہے

میں ڈھونڈنے کو نکل پڑوں تو تمہاری آواز

ایک دم سے ڈرا کے کہتی ہے؛ میں یہیں ہوں کہیں نہ جانا

میں کیسے تم پر یہ دل کی حالت کا راز کھولوں

جو راز تم ہی تو جانتی ہو

یہ ایک دل ہے اور اس کے اندر بس ایک گھر ہے

کہ اس کے کونے میں بس اکیلا ہی رہ گیا ہوں

وجود پورا ہے روح بھی ہے کہ سانس اب تک چلا رہی ہے

مگر بہت کچھ جو میں بیاں اب نہ کر سکوں گا وہ صرف تم ہو

تمہاری باتیں تمہاری یادیں، برستی بارش ہوا میں تیزی یا تپتا سورج

خزاں کا موسم بہار ہو یا فلک پہ بادل ہوں سب میں تم ہو

اگر تمہاری نظر سے میری یہ ایک منت کبھی جو گزرے

تو سوچ لینا کہ اب بھی واپس پلٹ کے آنے کی راہ پر وہ

 پرانا پاگل سا ایک لڑکا وہیں پہ بیٹھا یہ سوچتا ہے

 کبھی تو آؤ گی اور آ کر یہ کہ ہی دو گی کہ تم یہیں ہو


حافظ نعمان احمد

No comments:

Post a Comment