دوستوں سے تو کنارا بھی نہیں کر سکتا
ان کا ہر ظُلم گوارا بھی نہیں کر سکتا
میرا دُشمن مِرے اپنوں میں چُھپا بیٹھا ہے
اس کی جانب میں اشارا بھی نہیں کر سکتا
شب میں نکلے گا نہیں اس پہ مسلط ہے نظام
دن میں سُورج کا نظارا بھی نہیں کر سکتا
عیش و عشرت کا طلبگار نہیں ہوں پھر بھی
تنگ دستی میں گُزارا بھی نہیں کر سکتا
شوق ایسا کہ مچلتا ہے محبت کے لیے
جُرم ایسا کہ دوبارا بھی نہیں کر سکتا
غم ہے بیتاب کہ آنکھوں سے نکل جائے مگر
دل کی دولت کا خسارا بھی نہیں کر سکتا
ہدایت اللہ شمسی
No comments:
Post a Comment