Saturday 3 February 2024

حرف اترے جو ثنا خوانی کے عنوان ہوئے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حرف اُترے جو ثنا خوانی کے عُنوان ہوئے

عاقبت اپنی سنورنے کے بھی سامان ہوئے

تھا نہیں حرف سجانے کا سلیقہ مجھ کو

اک گُنہ گار پہ اللہ کے احسان ہوئے

میری اس نوکِ قلم پر ہیں ستارے رقصاں

لوگ جو محوِ تماشا تھا وہ حیران ہوئے

وہ جو کانٹوں کو بچھانے کا ہُنر رکھتے تھے

اپنے اس فن پہ وہ اک روز پشیمان ہوئے

بڑھ گئی عرشِ معلٰی کی فضیلت اس دم

وجہِ تخلیقِ جہاںﷺ آ کے جو مہمان ہوئے

کیسے رکھ پائیں گے اس مدح سرائی کا بھرم

بس یہی سوچ کے دن رات پریشان ہوئے

حرف تسلیم و رضا کو جو سمجھ پائے امین

مرحلے کرب کے آئے بھی تو آسان ہوئے


امین اوڈیرائی

No comments:

Post a Comment