Saturday 3 February 2024

جو دل کی بارگاہ میں تجلیاں دکھا گیا

 جو دل کی بارگاہ میں تجلّیاں دِکھا گیا

مِرے حواس و ہوش پر سرُور بن کے چھا گیا

تِرے بغیر زندگی گُزارنا مُحال تھا

مگر یہ قلب ناتواں یہ بوجھ بھی اُٹھا گیا

جو شخص میری ذات میں بسا ہوا تھا مُدتوں

نہ جانے مجھ سے رُوٹھ کر وہ اب کہاں چلا گیا

پھر آج اک ہوائے غم اُداس دل کو کر گئی

خیال تیری یاد کا نظر کو پھر بُجھا گیا

کبھی قدم جو تھک گئے غموں کی رہگزار میں

تِری نظر کا نُور تھا، جو حوصلے بڑھا گیا


صدیقہ شبنم

No comments:

Post a Comment