مانا کے مخالف یہ زمانے کی ہوا ہے
لیکن مرے ہمراہ میری ماں کی دعا ہے
میں بھول گیا اپنے ہر اک رنج و الم کو
جب سے ترے حالات کے بارے میں سنا ہے
نادم ہو گناہوں پہ تو اپنے ارے ناداں
ہے وقت ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے
ہاتھوں میں کبھی جس کے تھا میزانِ صداقت
افسوس وہی اب صفِ مجرم میں کھڑا ہے
کیا میرا بگاڑے گی یہ حالات کی آندھی
جب سر پہ مرے سایہ فگن فضلِ خدا ہے
رت رنگ بدلتی رہی آئے گئے موسم
میں پھول ہوں ایسا جو خزاں میں بھی کھلا ہے
ہوتا ہے گماں دیکھ کے مقبولیت اس کی
اردو کو ولی، میر کی غالب کی دعا ہے
ہم کیسے بھلائیں چھ دسمبر کا سانحہ
ہر چشم ہے خونبار ہر اک زخم ہرا ہے
دشمن کے بھی دکھ درد کا احساس ہو جس کو
کامل وہی انسان زمانے میں بڑا ہے
ریاض الدین کامل
No comments:
Post a Comment