ادھوری نسل کا پورا سچ
عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا
گرم شریانوں میں بہتے خون کا دریا بھنور ہونے لگا
حلقۂ موج ہوا کافی نہیں
وحشت ابر بدن کے واسطے
آغوش کوئی اور ہو
ورنہ یوں مردہ سڑک کے خواب آور سے کنارے
بے خیالی میں کسی تھوکے ہوئے بچے کی
الجھی سانس میں لپٹی ہوئی یہ زندگی
ذہن پر بار گراں بند قبا کے لمس کا احساس بھی
اور شہر حبس میں رستہ کوئی کھلتا نہیں
شاخ تنہا سے بیے کا گھونسلہ گرتا نہیں
وحشت ابر بدن کی خشک سالی
ایک چلو لمس کے پانی کی محتاجی کو روتی ہے مگر
دیکھنا، آوارہ کرنیں دیکھنا
جن کو رستوں میں بکھرتی
تتلیوں سی لڑکیوں کے زیر جاموں
اور شیریں جسم کے ہلکے مساموں تک سفر کا اذن ہے
عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا
اب کتابوں، تختیوں کی بے مزا چھاؤں تلے گھٹتا ہے دم
اب بدن چھپتا نہیں اخبار کے ملبوس میں
اب فقط عریانیاں لیکن
یقیناً مار ڈالے گی کہیں
ان بھرے شہروں کی تنہائی ہمیں
سعید احمد
No comments:
Post a Comment