Friday, 9 February 2024

مار ڈالے گی کہیں ان بھرے شہروں کی تنہائی ہمیں

 ادھوری نسل کا پورا سچ

عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا

گرم شریانوں میں بہتے خون کا دریا بھنور ہونے لگا

حلقۂ موج ہوا کافی نہیں

وحشت ابر بدن کے واسطے

آغوش کوئی اور ہو

ورنہ یوں مردہ سڑک کے خواب آور سے کنارے

بے خیالی میں کسی تھوکے ہوئے بچے کی 

الجھی سانس میں لپٹی ہوئی یہ زندگی

ذہن پر بار گراں بند قبا کے لمس کا احساس بھی

اور شہر حبس میں رستہ کوئی کھلتا نہیں

شاخ تنہا سے بیے کا گھونسلہ گرتا نہیں

وحشت ابر بدن کی خشک سالی

ایک چلو لمس کے پانی کی محتاجی کو روتی ہے مگر

دیکھنا، آوارہ کرنیں دیکھنا

جن کو رستوں میں بکھرتی

تتلیوں سی لڑکیوں کے زیر جاموں

اور شیریں جسم کے ہلکے مساموں تک سفر کا اذن ہے

عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا

اب کتابوں، تختیوں کی بے مزا چھاؤں تلے گھٹتا ہے دم

اب بدن چھپتا نہیں اخبار کے ملبوس میں

اب فقط عریانیاں لیکن 

یقیناً مار ڈالے گی کہیں 

ان بھرے شہروں کی تنہائی ہمیں


سعید احمد

No comments:

Post a Comment