اپنے روز و شب کا عالم کربلا سے کم نہیں
عرصۂ ماتم ہے لیکن فرصت ماتم نہیں
صرف جذب شوق میں پوریں لہو کرتے رہے
ہم وہاں الجھے جہاں پر کوئی پیچ و خم نہیں
کوئی روگ ایسا نہیں جو قریۂ جاں میں نہ ہو
کوئی سوگ ایسا نہیں جس میں کہ شامل ہم نہیں
کوئی لے ایسی نہیں جو صرف ہنگامہ نہیں
ایک بھی سر زندگی کے ساز کا مدھم نہیں
ایک ساون ہی نہیں ہے خوں رلانے کے لیے
اپنی آنکھیں خشک ہونے کا کوئی موسم نہیں
دست عیسیٰ کیا کرے جب جسم پر رکھتے ہیں ہم
ایک ایسا زخم جس کا وقت بھی مرہم نہیں
ایسی تنہائی سے تو شہزاد مر جانا بھلا
ایک بھی دشمن نہیں اور ایک بھی ہم دم نہیں
شہزاد قمر
No comments:
Post a Comment