Friday, 9 February 2024

دو چار دن ہی فقط ہاں ہنسی خوشی کے رہے

 دو چار دن ہی فقط ہاں ہنسی خوشی کے رہے

سو ان کے بعد بھلا ہم بھی کب کسی کے رہے

وہ ایک شخص، کسی کا کبھی جو ہو نہ سکا

کمال یہ ہُوا، ہم عمر بھی اُسی کے رہے

گُماں کہ درمیاں رہتے ہوئے یقین کِیا

تو ہم خُدا کے رہے پھر نہ ہم خودی کے رہے

تمہی نہیں ہو تماشہ ہوئے زمانے میں

ہمارے ساتھ بھی تو دن یہ بے گھری کے رہے

گُزاریں زندگی کیسے بھلا وہ لوگ بتا؟

جو دوستی کے رہے ہیں نہ دُشمنی کے رہے

ہمارا عشق بھی گویا کوئی فریب رہا

کہاں جنوں کے ہوئے کب کسی پری کے رہے

ہمارا تجربہ ہم کو یہی بتاتا ہے

جو شاعری کے ہوئے وہ نہ پھر کسی کے رہے

جہاں کے واسطے یہ لوگ ایک گالی ہیں

کبھی کسی کے ہوئے جو کبھی کسی کے رہے

ہمیں تو آج بھی وجدی یقیں نہیں آتا

کہ ان سے اپنے مراسم بھی دل لگی کے رہے


قیصر وجدی

No comments:

Post a Comment