دو چار دن ہی فقط ہاں ہنسی خوشی کے رہے
سو ان کے بعد بھلا ہم بھی کب کسی کے رہے
وہ ایک شخص، کسی کا کبھی جو ہو نہ سکا
کمال یہ ہُوا، ہم عمر بھی اُسی کے رہے
گُماں کہ درمیاں رہتے ہوئے یقین کِیا
تو ہم خُدا کے رہے پھر نہ ہم خودی کے رہے
تمہی نہیں ہو تماشہ ہوئے زمانے میں
ہمارے ساتھ بھی تو دن یہ بے گھری کے رہے
گُزاریں زندگی کیسے بھلا وہ لوگ بتا؟
جو دوستی کے رہے ہیں نہ دُشمنی کے رہے
ہمارا عشق بھی گویا کوئی فریب رہا
کہاں جنوں کے ہوئے کب کسی پری کے رہے
ہمارا تجربہ ہم کو یہی بتاتا ہے
جو شاعری کے ہوئے وہ نہ پھر کسی کے رہے
جہاں کے واسطے یہ لوگ ایک گالی ہیں
کبھی کسی کے ہوئے جو کبھی کسی کے رہے
ہمیں تو آج بھی وجدی یقیں نہیں آتا
کہ ان سے اپنے مراسم بھی دل لگی کے رہے
قیصر وجدی
No comments:
Post a Comment