Sunday 4 February 2024

زمیں کو عجلت ہوا کو فرصت خلا کو لکنت ملی ہوئی ہے

 زمیں کو عُجلت، ہوا کو فُرصت، خلا کو لُکنت مِلی ہوئی ہے

ہم احتجاجاً زمیں پہ زندہ ہیں یا اجازت ملی ہوئی ہے؟

ہم اپنی مرضی کے تارے چُن کر فلک پہ چہرے بنا رہے ہیں

بغیر چھت کے پڑے ہوئے ہیں تو یہ سہولت مِلی ہوئی ہے

بچھڑنے والوں کی بد دُعائیں ہماری عُمریں بڑھا رہی ہیں

یہ زہر خالص نہیں ہے اس میں کسی کی چاہت ملی ہوئی ہے

ہر ایک ناؤ بھٹک بھٹک کر ہمارے ساحل پہ آ رہی ہے

ہر اک جزیرے کے باسیوں کو ہم ایسی وحشت ملی ہوئی ہے

ہماری اوقات کے مطابق ہمارے درجے بنے ہوئے ہیں

کسی کو قُدرت، کسی کو مُہلت، کسی کو قسمت مِلی ہوئی ہے


ہمایوں خان

No comments:

Post a Comment