Sunday, 4 February 2024

وہ کون ہے جو محصور بے بسوں کی ندا سنے گا

 وہ کون ہے جو؟ 

ستم رسیدہ، غموں کے ماروں کی آہ و زاری 

کہاں ہے کوئی؟ جو درد مندوں کی نوحہ خوانی  

گھروں میں محصور بے بسوں کی ندا سنے گا

صدائے خلقِ خدا سنے گا 

نہ دال روٹی، نہ پانی بجلی

کئی دنوں سے وہ بھوکے پیاسے 

ہیں بے خبر سب جہان سے اور 

جہاں بھی سارا ہی بے خبر ہے 

نہ دسترس ہے زمینی اُن تک 

نہ رابطہ ہے فضائی کوئی 

کئی دنوں سے کوئی خبر بھی 

ہمارے تک ہے نہ آن پہنچی 

سبھی روابط جو منقطع ہیں 

کہاں ہو لینن کے جاں نثارو؟ 

حقوقِ انساں کے دعویدارو؟ 

نہ نظم کوئی؟ نہ شعر کوئی؟ 

کہیں کوئی تعزیتی ریفرنس؟ 

مزمتی سی قرار دادیں؟ 

تمہاری جانب سے آ رہی ہیں 

بے جاں عقیدوں کے پیروکارو، وفا شعارو

تمہاری جھوٹی عقیدتوں کے 

نقاب سارے اتر چکے ہیں 

شعور کیا ہے؟ ضمیرکیا ہے؟ 

سبھی تخیل بکھر چکے ہیں 

تمہارے جسموں کو راس آئے سفید کپڑے 

مگر سنو تم

سفید آنکھوں سے دیکھنے والوں کو بھلا کیا دکھائی دے گا؟ 

میں جانتا ہوں

فقط جو روئیں گے اہلِ مغرب 

تمہارا دل پھر دہائی دے گا 

شعور مغرب کی جھولیوں میں 

ضمیر مغرب کے مردہ خانوں میں یوں پڑے ہیں 

کہ جیسے لاشیں (نعشیں) پڑی ہوئی ہوں 

اے کاش اقبال آج ہوتے

صدائیں سنتے، پکار سنتے 

اصول آزادی کے بتاتے 

جناح ہوتے تو بے سہاروں 

غموں کے ماروں کی دنیا بھر میں 

وکیل بن کر عمل سے اپنے جنگ لڑتے 

سمجھ سکو تو یہ بات سمجھو 

ہنود کے فیصلوں سے کیونکر؟ 

یہود کے فلسفوں سے کیسے؟ 

نجاتِ کامل ملے گی ہم کو 

یہ مسئلے سب، مصیبتیں سب 

ہماری ہیں اور ہمی نے حل بھی نکالنے ہیں 

مصیبتوں میں گھرے ہوئے لوگ 

ہمارے اپنے ہیں اور ہمی نے سنبھالنے ہیں 


سید صداقت علی

No comments:

Post a Comment