حبسِ زندانِ جنوں خیز میں کیا غم ہے مجھے
گرمئ وحشتِ جاں سوز کوئی کم ہے مجھے
ہے وہ جلوہ تو اسی دُھند کے آئینے میں
پردہ ہائے اشکِ رواں دیدۂ شبنم ہے مجھے
خمِ ابرُو پہ نظر رُک سی گئی ہے، لیکن
قوسِ افلاک اب اک نُکتۂ برہم ہے مجھے
اس کے آنے میں بھی تاخیر ہوئی جاتی ہے
سانس لینے کی اجازت بھی کوئی دم ہے مجھے
زاہد نوید
No comments:
Post a Comment