Tuesday 6 February 2024

آہ وہ ایام عشرت ہائے وہ لیل و نہار

 آہ وہ ایام عشرت، ہائے وہ لیل و نہار

واپس آ سکتے نہیں اس زندگی میں زینہار

نالے آتش ریز آہیں خُون میں ڈُوبی ہوئی

آنکھ غم آگیں نگاہیں خُون میں ڈُوبی ہوئی

سوزشِ پنہاں سے پڑتے ہیں زباں میں آبلے

ہونٹ تھر تھر کانپتے ہیں گُفتگو کرتے ہوئے

کیا خبر تھی اس طرح لُٹ جائے گا یہ کارواں

کیا خبر تھی در پئے آزار ہو گا آسماں

اے اجل کیوں تُو نے لُوٹے میرے اسباب نشاط

ابرِ غم سے ہو گیا بے نُور مہ تاب نشاط

آ نہیں سکتا پھر اب وہ وقت اے پنہاں کبھی

صُبح دم بستر سے اُٹھتی ہوں با صد خرمی

پڑھ رہے ہیں تخت پر وہ میرے ابا جاں نماز

اور جبین نُور افشاں سے ٹپکتا ہے نیاز

چھاؤں میں تاروں کی بے فکری سے ہیں لیٹے ہوئے

گرد سب بچے ہیں ان کے شادماں بیٹھے ہوئے

ہائے ابا جان اک دم اس طرح پھیری نگاہ

اس جہاں میں اُف ہمیں چھوڑا تڑپتا آہ آہ

رابعہ صدقے گئی یہ بند آنکھیں کھولیے

آہ ان معجز نما ہونٹوں سے کچھ تو بولیے

ہائے سینہ سے لگا لیجیے ہمیں پھر ایک بار

ہو رہے ہیں دیکھیے ہم لوگ کتنے بے قرار

اے اجل تجھ کو مبارک ہوں یہ ظُلم آرائیاں

لوٹ لے دل کھول کر ظالم یہ گُلزار جہاں

ہے مزین اپنی ہستی سے تِرے دریائے ظُلم

ہے ہمارے خُون سے لبریز یہ مینائے ظُلم

میری بربادی میں مُضمر تِرا رازِ زندگی

سوز ہے مظلوم کا ظالم کا ساز زندگی

آہ ہو جائے شکستہ کاش یہ تارِ نفس

ہو کہیں آزاد یہ مُرغِ گرفتارِ قفس

کر دے اے بادِ اجل گُل اب میری شمعِ حیات

میری روزِ زندگی کی کاش اب ہو جائے رات


پنہاں بریلوی

رابعہ پنہاں

No comments:

Post a Comment