نیند کا عالم پوچھ رہے ہو کیوں بے گھر بنجاروں سے
کام یہ بستر کا لیتے ہیں پھٹے ہوئے اخباروں سے
آج کا انساں ہاتھ کی ریکھا میں تقدیر کو پڑھ پڑھ کر
جانے کیا کیا پوچھ رہا ہے سورج، چاند، ستاروں سے
بیماری کو جاننے والے اجمل اور لقمان کہاں؟
آج ارسطو کوئی نہیں جو پیار کرے بیماروں سے
غرق وہ اکثر ہو جاتے ہیں بیچ بھنور سے پہلے ہی
عُمر کی کشتی کھیتے ہیں جو کاغذ کے پتواروں سے
میرے پیار کے صحن چمن کو ایک ہی پل میں پھونک دیا
یار نے ایسا کام لیا ہے دہشت کے انگاروں سے
اک روٹی کے بدلے وہ کرتے ہیں بزرگوں کی تضحیک
انجم کو محفوظ ہی رکھنا قوم کے ٹھیکیداروں سے
انجم لکھنوی
No comments:
Post a Comment