Thursday 8 February 2024

نیند کا عالم پوچھ رہے ہو کیوں بے گھر بنجاروں سے

 نیند کا عالم پوچھ رہے ہو کیوں بے گھر بنجاروں سے

کام یہ بستر کا لیتے ہیں پھٹے ہوئے اخباروں سے

آج کا انساں ہاتھ کی ریکھا میں تقدیر کو پڑھ پڑھ کر

جانے کیا کیا پوچھ رہا ہے سورج، چاند، ستاروں سے

بیماری کو جاننے والے اجمل اور لقمان کہاں؟

آج ارسطو کوئی نہیں جو پیار کرے بیماروں سے

غرق وہ اکثر ہو جاتے ہیں بیچ بھنور سے پہلے ہی

عُمر کی کشتی کھیتے ہیں جو کاغذ کے پتواروں سے

میرے پیار کے صحن چمن کو ایک ہی پل میں پھونک دیا

یار نے ایسا کام لیا ہے دہشت کے انگاروں سے

اک روٹی کے بدلے وہ کرتے ہیں بزرگوں کی تضحیک

انجم کو محفوظ ہی رکھنا قوم کے ٹھیکیداروں سے


انجم لکھنوی

No comments:

Post a Comment