عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے لگتا نہیں ہے کوئی ڈر طیبہ کہ گلیوں میں
حیات اپنی مکمل ہو بسر طیبہ کیہ گلیوں میں
قبول اب تو دل ناداں کی ہو جائے دُعا یا رب
اسے جینا ہے جا کر عمر بھر طیبہ کی گلیوں میں
سلام ان کو مِرا کہنا عقیدت سے محبت سے
تِرا جس وقت ہو زائر گُزر طیبہ کی گلیوں میں
خُدا را ڈھونڈ کے واپس نہ لانا تم مجھے گھر کو
بھٹک جاؤں میں جا کر جو اگر طیبہ کی گلیوں میں
ہم اس قابل نہیں مولیٰ!، مگر ہے آرزو دل میں
ہمارا ہو کوئی چھوٹا سا گھر طیبہ کی گلیوں میں
مقدر میں خدا لکھ دے کہ ہم سب بھی نہا آئیں
برستا نُور ہے شام و سحر طیبہ کہ گلیوں میں
ادب کی سر زمیں ہے یہ ادب کی پاسداری کر
تِرا جس دم بھی ہو کاظم سفر طیبہ کی گلیوں میں
کاظم شیرازی
No comments:
Post a Comment