Thursday, 1 February 2024

فطرت کا اس کی آج پتہ سب کو چل گیا

 فطرت کا اس کی آج پتہ سب کو چل گیا

واعظ کا خُود بیاں کے مخالف عمل گیا

پنہاں روش میں اپنی زمانے کی ہے روش

جب ہم نے خُود کو بدلا، زمانہ بدل گیا

نکلا تھا آفتاب جو میرے مکان سے

سُنتا ہوں تیرے در پہ وہ پہنچا تو ڈھل گیا

دُشمن تھا جس کی جان کا فرعونِ نا مُراد

گھر میں اسی کے دیکھو وہی بچہ پل گیا

ہم ظالموں کے بیچ کوئی نیک ہے ضرور

جس کی دُعا سے قہرِ خُدا آ کے ٹل گیا

ناسُور بن نہ جائے کہیں زخمِ زندگی

میں تو سمجھ رہا تھا کہ کانٹا نکل گیا

آمادہ دُشمنی پہ جو رہتا تھا ہر گھڑی

بُغض و حسد کی آگ میں وہ خُود ہی جل گیا

جو کام آج کرنا ہے کر لیجیے ابھی

پچھتاؤ گے جو آج بھی کل میں بدل گیا

جُھک جُھک کے مُشکلیں مجھے کرنے لگیں سلام

جس وقت گِرتے گِرتے میں کامل سنبھل گیا


ریاض الدین کامل

No comments:

Post a Comment