Friday 9 February 2024

در حبیب سے اپنی نظر ہٹا نہ سکے

 درِ حبیب سے اپنی نظر ہٹا نہ سکے

لبوں پہ دم تھا مگر آنکھ ہم چُرا نہ سکے

وہ کیا چڑھائیں گے پُھول آ کے میری تُربت پر

جو جیتے جی کبھی بالیں پہ میری آ نہ سکے

کریں گے قیدِ قفس سے وہ کیا رہا ہم کو

قفس کی تیلیوں سے جو چمن دکھا نہ سکے

کیے جو درد سے نالے اسیر بُلبل نے

کچھ ایسی اوس پڑی پُھول مُسکرا نہ سکے

ارے وہ بارِ امانت اُٹھا لیا میں نے

کہ آسماں و زمیں بھی جسے اُٹھا نہ سکے

بوقتِ قتل میرے شوقِ بے قرار کو دیکھ

ہُوا ہے ان کو تحیّر کہ ہاتھ اُٹھا نہ سکے

وہ رعبِ حُسن تھا غالب بوقتِ دِید جمال

ہم اپنا حال اشاروں سے بھی سُنا نہ سکے

چلے تلاش میں اس کی رہِ طلب میں مگر

کچھ ایسے کھوئے کہ اپنی خبر بھی پا نہ سکے

جفائے اہلِ وطن کی یہ انتہا ہے جمال

قسم تک اپنے وطن کی ہم آہ کھا نہ سکے


بلقیس جمال بریلوی

No comments:

Post a Comment