ہم یہ کس شہرِ محبت کی ہوا کھا آئے
دل یہ پھر چاہے کوئی زخم نیا کھا آئے
کوئی ہمراہ نہ تھا، کوئی ہم آواز نہ تھا
ہم تو خُود اپنے ہی سائے سے دغا کھا آئے
جتنے اسباب کیے، سارے غلط ہی بیٹھے
عشق چُھوٹا تو کوئی اور خطا کھا آئے
زندگی تجھ سے رہائی کے لیے نکلے تھے
زہر بھی کام نہ آیا تو قضا کھا آئے
چل دئیے لوگ تِرے پیار کے طعنے دے کر
ہم وہ دیوانے کہ اس پر بھی حیا کھا آئے
ابھی دُنیا میں کئی زخم، کئی چوٹیں تھیں
ہم تو سمجھے کہ مقدر کا لکھا کھا آئے
میرا غم یہ ہے کہ ہاتھوں میں نوالے رہ گئے
لوگ تو اپنے ہی پیاروں کو کِھلا، کھا آئے
نجم الحسن کاظمی
No comments:
Post a Comment