Thursday 8 February 2024

محرم راز وفا عشق آشنا کوئی نہیں

 محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں

کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں

بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی

اب جہاں میں اس طرح سے سوچتا کوئی نہیں

اے مسیحا صرف تجھ کو دیکھنے آتا ہوں میں

ورنہ مجھ کو ہے خبر میری دوا کوئی نہیں

دہر میں قصہ ہمارے عشق کا مشہور ہے

گرچہ کرداروں کو اس کے جانتا کوئی نہیں

جانے کیوں اب بھی مجھے سب پر بہت ہے اعتبار

جانتا یہ بھی ہوں میں اب پارسا کوئی نہیں

رنج و غم ہے درد ہے حسرت، الم، الجھن، فراق

کون کہتا ہے کہ میرا آسرا کوئی نہیں

جانب منزل چلا تھا لے کے کشتی زیست کی

کس طرح ساحل ملے جب ناخدا کوئی نہیں

یاں نمائش زخم کرنا زخم دل کی ہے محسن عبث

یاں کسی بھی لب پہ آئے گی دعا کوئی نہیں


صائب جعفری

No comments:

Post a Comment