Friday 31 October 2014

تو کہاں چلی گئی تھی

تُو کہاں چلی گئی تھی
تیرا بے قرار انشاؔ
تیری جستجو میں حیراں
تیری یاد میں سلگتا
کبھی بستیوں بنوں میں
کبھی سوئے کوہ صحرا
کبھی سورشوں میں کھویا
کبھی بے کس تنہا
لیے دید کی تمنا
بنا آرزو سراپا
تجھے ہر جگہ پکارا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہارا
تو کہ روحِ زندگی تھی
تو کہاں چلی گئی تھی
غمِ عاشقی نبھاتا
یا اداس گیت گاتا
میری شاعری کی رانی
میری حاصلِ جوانی
میری جانِ زندگانی
تو کہاں چلی گئی تھی
تو کہاں چلی گئی تھی

ابن انشا

No comments:

Post a Comment