گرانئ شبِ ہجراں دوچند کیا کرتے
علاجِ درد ترے دردمند کیا کرتے
وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
یہ فرق دستِ عدو کے گزند کیا کرتے
جگہ جگہ پہ تھے ناصح، تو کُو بکُو دلبر
ہمیں نے روک لیا پنجۂ جنوں، ورنہ
ہمیں اسیر یہ کوتاہ کمند کیا کرتے
جنہیں خبر تھی کہ شرطِ نواگری کیا ہے
وہ خوشنوا گلۂ قید و بند کیا کرتے
گلوئے عشق کو دار و رسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند، کیا کرتے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment