بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آۓ ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا کہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے، سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھِل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
فیض احمد فیض
لوٹ آۓ ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا کہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے، سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھِل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment