Tuesday 28 October 2014

بہار آئی تو جیسے یکبار

بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آۓ ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا کہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے، سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھِل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment