Tuesday 28 October 2014

تنہائی پھر کوئی آیا دلِ زار نہیں، کوئی نہیں

تنہائی

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں، کوئی نہیں
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment