کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں
مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں
زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے
ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں
پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں
قدم ادھر ہی اٹھے جا رہے ہیں جس جانب
سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں
کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی
مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں
نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو
میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں
فریاد آزر
No comments:
Post a Comment