Wednesday 29 October 2014

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرّتِ پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
ہجومِ یاس سے بے تاب ہو کے رہ جائے
وفورِ درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرورِ حسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پہ جھکے
کہ جنسِ عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریبِ وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لیے بے قرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment