خدا وہ وقت نہ لائے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرّتِ پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے
غموں سے آئینۂ دل گداز ہو تیرا
وفورِ درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے
غرورِ حسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پہ جھکے
کہ جنسِ عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریبِ وعدۂ فردا پہ اعتماد کرے
خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے
وہ دل کہ تیرے لیے بے قرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو ترا انتظار اب بھی ہے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment