Thursday 30 October 2014

اٹھے نہ تھے ابھی ہم حال دل سنانے کو

اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتشِ گُل نے چمن میں ہر تنکہ
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو
جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رموز بہت
مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو
قدم قدم پہ رُلایا ہمیں مقدر نے
ہم ان کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو
نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں
سنا تو دی ہے انہیں داستاں، سنانے کو
کہو کہ ہم سے رہیں دور، حضرتِ واعظ
بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو
اب ایک جشنِ قیامت ہی اور باقی ہے
اداؤں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو
شب فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی
غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو
نصیرؔ جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی
تُلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اٹھانے کو

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment