Tuesday, 28 October 2014

کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے

کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر آتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر رہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب کوچۂ دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہرروز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

منٹگمری جیل 17 جون 54ء

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment