سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ گرد رقیبوں نے
خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے
شب کی بساط ناز لپیٹو، شمع کے سرد آنسو پونچھو
نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے
کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے
امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے
فتح مبین کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے
انشاؔ جی اب آئے جو ہو دو بیت کہو اور اٹھ جاؤ
تمہی کہو تمہیں شاعر مانا کب سے بڑے ادیبوں نے
ابن انشا
No comments:
Post a Comment