Friday 31 October 2014

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ گرد رقیبوں نے

سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ گرد رقیبوں نے
خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے
شب کی بساط ناز لپیٹو، شمع کے سرد آنسو پونچھو
نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے
کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے
شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے
امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے
فتح مبین کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے
انشاؔ جی اب آئے جو ہو دو بیت کہو اور اٹھ جاؤ
تمہی کہو تمہیں شاعر مانا کب سے بڑے ادیبوں نے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment