Thursday, 30 October 2014

مجھے تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے

مجھے تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے
 متاعِ خواب تجھے اب کدھر پہنچنا ہے
 کراہتا ہے سرِ راہ درد سے کوئی
مگر مجھے بھی تو جلدی سے گھر پہنچنا ہے
ہواؤ کب سے ہیں سکتے میں زرد رو اشجار
برائے نوحہ گری کب ادھر پہنچنا ہے
ہمیں خبر نہیں کب جائیں اور کدھر جائیں
نکل پڑو کہ تمہیں وقت پر پہنچنا ہے
اسی لیے تو میں کم بولتا ہوں، سوچتا ہوں
کدھر کی بات کو پل میں کدھر پہنچنا ہے
کہیں تو ہونی ہے انجام کشمکش دل کی
کہیں تو معرکۂ خیر و شر پہنچنا ہے
درونِ بحرِ خلا دم نکل رہا ہے مرا
تو کیا مجھے بھی کسی سطح پر پہنچنا ہے
ابھی تو کتنے جہانوں کا سامنا ہے مجھے
کہاں تلک مِرا زادِ سفر پہنچنا ہے

سجاد بلوچ

No comments:

Post a Comment