Tuesday 28 October 2014

اے روشنیوں‌ کے شہر

اے روشنیوں‌ کے شہر

سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروں‌ کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سُو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شب خوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں، اونچی رکھیں لو

لاہور جیل ۲۸ مارچ منٹگمری جیل ۱۵ اپریل ۵۴ء

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment