Friday 31 October 2014

لب پر نام کسی کا بھی ہو

لب پر نام کسی کا بھی ہو 

لب پر نام کسی کا بھی ہو، دل میں تیرا نقشا ہے
اے تصویر بنانے والی، جسب سے تجھ کو دیکھا ہے
بے تیرے کیا وحشت ہم کو، تجھ بن کیسا صبر وسکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی، تو ہی اپنا صحرا ہے
نیلے پربت ، اودی دھرتی، چاروں کوٹ میں تو ہی تو
تجھ سے اپنے جی کی خلوت، تجھ سے من کا میلا ہے
آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
یوسفؑ تو بازارِ وفا میں، ایک ٹکے کو بکتا ہے
لے جانی اب اپنے من کے پیراہن کی گرہیں کھول
لے جانی اب آدھی شب ہے، چاروں طرف سناٹا ہے
طوفانوں کی بات نہیں ہے، طوفاں آتے رہتے ہیں
تو اک نرم ہوا کا جھونکا، دل کے باغ میں ٹھہرا ہے
یا تو آج ہمیں اپنا لے، یا تو آج ہمارا بن
دیکھ کے وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے
فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہیں
ہجر و وصل، وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھا ہے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment