Friday 31 October 2014

انشا جی بہت دن بیت چکے

انشاؔ جی بہت دن بیت چکے

انشاؔ جی بہت دن بِیت چکے
تم تنہا تھے، تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو
کبھی پورب میں، کبھی پچھم میں
تم پُروا ہو، تم پچھوا ہو
جو نگری نگری بھٹکائے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں 
کیا ایک تمہی یہاں دُکھیا ہو
کیا ایک تمہی پر دھوپ کڑی
جب سب پر سُکھ کا سایہ ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بگیا کا بیلا ہو
تم کس ساگر کی لہر بھلا
تم کس بادل کی برکھا ہو
تم کس پونم کا اجیارا
کس اندھی رین کی اوشا ہو
تم کن ہاتھوں کی مہندی ہو
تم کس ماتھے کا ٹیکا ہو
کیوں شہر تجا، کیوں جوگ لیا
کیوں وحشی ہو، کیوں رسوا ہو
ہم جب دیکھیں بہروپ نیا
ہم کیا جانیں تم کیا کیا ہو

جب سورج ڈوبے سانجھ بھئے
اور پھیل رہا اندھیارا ہو
کسی ساز کی لے پر ‌جھنن جھنن
کسی گیت کا مکھڑا جاگا ہو
اس تال پہ ناچتے پیڑوں میں
اک چپ چپ بہتی ندیا ہو
ہو چاروں کوٹ سگندھ بسی
جیوں جنگل پہنا گجرا ہو
یہ انبر کے مکھ کا آنچل
اس آنچل کا رنگ اودا ہو
اک گوت روپہلے تاروں کی
اور بیچ سنہرا چندا ہو
اس سندر شیتل شانت سمے
ہاں بولو بولو پھر کیا ہو
وہ جس کا ملنا ناممکن
وہ مل جائے تو کیسا ہو‌

کیوں ایسے سپنے دیکھتے ہو
انشاؔ جی تم آپ بھی سپنا ہو
اک بیتیں لکھتے شاعر ہو
اک گیت اگلتی بینا ہو
یہ باتیں من میں وہ سوچے
جو کیا بتلائیں کیسا ہو 
وہ جس کے ہاتھ میں قسمت کی
اک لمبی گہری ریکھا ہو
وہ شخص پرانے قصوں کا
اک مدماتا شہزادہ ہو
جو شہر کا رستہ بھولا ہو
اور جنگل میں آ نکلا ہو
وہ راجا کاشی نگری کا
یا والئی بلخ و بخارا ہو
کچھ اس کے تاج پہ کلغی ہو
کچھ اس کا چاند سا چہرہ ہو
وہ مالک محل اٹاریوں کا
یا روپے سونے والا ہو
یا کوئی انوکھا گُن والا
وہ جس کا جگ میں چرچا ہو
یا کوئی سجیلا بنجارا
جو نگری نگری گھوما ہو

ہم نگری نگری گھومے تو
جب نکلے تھے آوارہ ہو
و ہ لندن ہو، وہ پیرس ہو
وہ برلن ہو، وہ روما ہو
وہ کابل ہو، وہ بابل ہو
وہ جاوا ہو، وہ لنکا ہو
وہ ساحلِ سین، وہ رائن ہو
یا ساحتِ نیل و دجلہ ہو
وہ چین کا دیش وشلا کہیں
یا پچھم دیس امریکا ہو
ہو چوٹی فیوجی یاما کی
یا الپس کا پربت اونچا ہو
وہ چھتیں گلابی لیڈن کی
یا نیلا آبِ جنیوا ہو
دن استنبول کی گلیوں میں
یا شب کی سیرِ پراہا ہو
کچھ صورتیں تھیں، کچھ مورتیں تھیں
کچھ اور بھی شاید دیکھا ہو
جہاں نظریں ٹھہری ٹھٹکی ہوں
جہاں دل کا کانٹا اٹکا ہو
پر ہم کو تو کچھ یاد نہیں
کچھ کھویا ہو، کچھ پایا ہو
ان باتوں میں، ان گھاتوں میں
سنجوگ کا کوئی لمحہ ہو
ہم اپنے جو خود آپ نہیں
پھر بولو کون ہمارا ہو
یوں سمجھو شہر سرائے میں
شب بھر کے لیے کوئی اترا ہو
کوئی پردیسی، کوئی سیلانی
وہ جس کا دور ٹھکانہ ہو
شام آئے سویرے کوچ کیا
جب دھندلا دھندلا رستہ ہو
جب دھرت سونی سونی ہو
جب انبر پھیکا پھیکا ہو

اک عالم تھا، کیا عالم تھا
وہ سچا ہو، یا جھوٹا ہو
ہم اپنے آپ میں ڈوب گئے
خود پتھر بن، خود دریا ہو
جیوں گھاس کا تنکا جنگل میں
جیوں آندھی میں کوئی پتا ہو
ہم کس سے کہیں، کس طور کہیں
کوئی بات ہماری سمجھا ہو 
ہم اس سے ملیں جو اپنا ہو
ہم اس سے کہیں جو ہم سا ہو
جب یہ بھی نہیں، جب وہ بھی نہیں
کیا بات بنے، کیا رستہ ہو
اس زنداں میں کوئی روزن ہو
اس گنبد میں‌ دروازہ ہو

اے جوگی، اے درویش کوی
کیوں عمر گنوائے رمتا ہو
کیوں تن پر راکھ بھبوت ملے
تو گورکھ ناتھ کا چیلا ہو
یہ پورب پچھم کچھ بھی نہیں
یہ جوگ بجوگ بھی دھوکا ہو
جو تجھ سے جدا سب مایا ہے
یا اپنے کو اگر پانا ہو
کیوں اور پہ جی کو رجھاتا ہے
یہ پیت کی ریت تو پھندا ہو
جو ہارا جان سے ہار گیا
جو جیتا وہ بھی رسوا ہو
دھونی نہ رما، بسرام نہ کر
بس الکھ جگا کر چلتا ہو
تو اپنا رہ، تو اپنا بن
تو انشاؔ ہے، تو انشاؔ ہو

ابن انشا

No comments:

Post a Comment