میرے ندیم
خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھے مہ و انجم
جنونِ عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیں کہاں سو گئیں ہیں میرے ندیم
وہ ناصبور نگاہیں، وہ منتظر راہیں
وہ انتظار کی راتیں، طویل تیرہ و تار
وہ نیم خواب شبستاں، وہ مخملیں باہیں
کہانیاں تھیں، کہیں کھو گئی ہیں، میرے ندیم
مچل رہا ہے رگِ زندگی میں خونِ بہار
الجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار
چلو کہ چل کے چراغاں کریں دیارِ حبیب
ہیں انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار
محبتیں جو فنا ہو گئیں ہیں میرے ندیم
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment