Thursday 30 October 2014

صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا

صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا
یہ وار مجھ پہ ہوا بھی تو غائبانہ ہوا
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کیلئے
میں پاش پاش ہوا، گھر نگار خانہ ہوا
جھلس رہا تھا بدن گرمئ نفس سے مگر
تِرے خیال کا خورشید شامیانہ ہوا
خود اپنے ہجر کی خواہش مجھے عزیز رہی
یہ تیرے وصل کا قصہ تو اک بہانہ ہوا
خدا کی سرد مزاجی سما گئی مجھ میں
مِری تلاش کا سودا پیمبرانہ ہوا
میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں
تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا
وہ شخص جس کیلئے شعر کہہ رہا ہوں نصیرؔ
غزل سنائے ہوئے اس کو اک زمانہ ہوا

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment