اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آسمان بھی چپ
اِدھر سسکتے ہوئے لبوں کا برہنہ طرزِ بیان بھی چپ
نہ جانے کن خواہشوں کی شدت کا شور کمرے میں گونجتا تھا
نہ جانے کیا کہہ گئی ہوا، ہو گیا وہ خالی مکان بھی چپ
نئی رُتوں نے ہوا کی رَو سے نہ جانے کیا ساز باز کر لی
کہیں کوئی سر پھری ندا پردۂ سماعت بھی نوچ ڈالے
مگر کہیں دہشتِ سماعت سے احتجاجی زبان بھی چپ
پکارتا تھا پناہ لے لے کوئی بھی سائے میں میرے آزر
تھی دھوپ ایسی ہمارے سر پر کہ ہو گیا سائباں بھی چپ
فریاد آزر
No comments:
Post a Comment