صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ گلزار ہے کون
شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون
رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment