Friday 31 October 2014

نگاہ تشنہ کو تسکین اضطراب تو دے

نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
وہ آب دے کہ نہ دے منظرِ سراب تو دے
مری نگاہوں سے اس کو نہ پھر گلہ ہو گا
وہ اپنے چہرے سے اچھی کوئی کتاب تو دے
جہاں کھلے ہوں مسرت کے پھول بھی دوچار
دلِ حزیں کو اب اُن موسموں کا باب تو دے
ہے اعتماد، حقیقت کا روپ دیدوں گا
مری نگاہ کو خوش فہمیوں کا خواب تو دے گا
تجھے بھی جاوداں کر دے تری غزل آزرؔ
جہانِ شعر کو اک ایسا انتخاب تو دے

فریاد آزر

No comments:

Post a Comment