نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
وہ آب دے کہ نہ دے منظرِ سراب تو دے
مری نگاہوں سے اس کو نہ پھر گلہ ہو گا
وہ اپنے چہرے سے اچھی کوئی کتاب تو دے
جہاں کھلے ہوں مسرت کے پھول بھی دوچار
ہے اعتماد، حقیقت کا روپ دیدوں گا
مری نگاہ کو خوش فہمیوں کا خواب تو دے گا
تجھے بھی جاوداں کر دے تری غزل آزرؔ
جہانِ شعر کو اک ایسا انتخاب تو دے
فریاد آزر
No comments:
Post a Comment