اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
راہ تکتے ہوئے پتھرا سی گئی تھی آنکھیں
آہ بھرتے ہوئے چھلنی ہوا سینہ لوگو
کتنی اس شہر کے سخیوں کی سُنی تھی باتیں
سب کے سب مست رہے اپنے نہاں خانوں میں
کوئی کچھ بات مسافر کی بھی سُنتا لوگو
ہونٹ جلتے تھے جو لیتا تھا کبھی آپ کا نام
اس طرح اور کسی کو نہ ستانا لوگو
بند آنکھیں ہوئی جاتی ہیں، پساریں پاؤں
نیند سی نیند ہمیں اب نہ جگانا لوگو
کوئی خبر اس کی ہمیں ہو تو تمہیں بتلائیں
کون نگر، کون گلی، کون محلہ لوگو
چند لفظوں کا معمہ تھا وہ الجھا سلجھا
اس نے تو نام بھی پورا نہ بتایا لوگو
ابن انشا
No comments:
Post a Comment