Friday 31 October 2014

اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا

اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
راہ تکتے ہوئے پتھرا سی گئی تھی آنکھیں
آہ بھرتے ہوئے چھلنی ہوا سینہ لوگو
کتنی اس شہر کے سخیوں کی سُنی تھی باتیں
ہم جو آئے تو کسی نے بھی نہ پوچھا لوگو
سب کے سب مست رہے اپنے نہاں خانوں میں
کوئی کچھ بات مسافر کی بھی سُنتا لوگو
ہونٹ جلتے تھے جو لیتا تھا کبھی آپ کا نام
اس طرح اور کسی کو نہ ستانا لوگو
بند آنکھیں ہوئی جاتی ہیں، پساریں پاؤں
نیند سی نیند ہمیں اب نہ جگانا لوگو
کوئی خبر اس کی ہمیں ہو تو تمہیں بتلائیں
کون نگر، کون گلی، کون محلہ لوگو
چند لفظوں کا معمہ تھا وہ الجھا سلجھا
اس نے تو نام بھی پورا نہ بتایا لوگو

ابن انشا

No comments:

Post a Comment