Wednesday 29 October 2014

آخری خط وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے

آخری خط

وہ وقت مِری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن چائیں گے مجھ سے مِرے آنسو مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مِری بے کار جوانی
شاید مِری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ گی مِری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید مری تُربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید مِری بے سود وفاؤں پہ ہنسو گی
اس وضع کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہو گا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہو گا
القصّہ مآل غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہوتمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندۂ الفت

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment