آخری خط
وہ وقت مِری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن چائیں گے مجھ سے مِرے آنسو مری آہیں
شاید مِری الفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ گی مِری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید مری تُربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید مِری بے سود وفاؤں پہ ہنسو گی
اس وضع کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہو گا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہو گا
القصّہ مآل غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو، فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہوتمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندۂ الفت
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment