شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شبِ فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے
یہ ضد ہے یادِ حریفانِ بادہ پیما کی
صبا نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment