Tuesday 28 October 2014

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارۂ شام
شبِ فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے
یہ ضد ہے یادِ حریفانِ بادہ پیما کی
کہ شب کو چاند نہ نکلے، نہ دن کو ابر آئے
صبا نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment