سیاسی لیڈر کے نام
سالہا سال یہ بے آسرا جکڑے ہوئے ہاتھ
رات کے سخت و سیہ سینے میں پیوست رہے
جس طرح تنکہ سمندر سے ہو سرگرمِ ستیز
جس طرح تیتری کہسار پہ یلغار کرے
اور اب رات کے سنگین و سیہ سینے میں
جابجا نور نے اک جال سا بُن رکھا ہے
دور سے صبح کی دھڑکن کی صدا آتی ہے
تیرا سرمایہ، تری آس یہی ہاتھ تو ہیں
اور کچھ بھی تو نہیں پاس، یہی ہاتھ تو ہیں
تجھ کو منظور نہیں غلبۂ ظلمت، لیکن
تجھ کو منظور ہے یہ ہاتھ قلم ہو جائیں
اور مشرق کی کمیں گہ میں دھڑکتا ہوا دن
رات کی آہنی میت کے تلے دب جائے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment