سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے، مگر
ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ہیں
بادِ خزاں کا شکر کرو، فیضؔ جس کے ہاتھ
نامے کہاں بہار شمائل سے آئے ہیں
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment