Friday, 31 October 2014

دروازہ کھلا رکھنا

دروازہ کھلا رکھنا 

دل درد کی شدت سے خوں گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا
سینےسے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑی برسے
پھاگن کا نہیں‌بادل، جو چار گھڑی برسے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، برسے تو بڑی برسے

دروازہ کھلا رکھنا
آنکھوں میں تو اک عالم، آنکھو ں میں تو دنیا ہے
ہونٹوں پہ مگر مہریں، منہ سے نہیں کہتا ہے
کس چیز کو کھو بیٹھا، کیا ڈھونڈنے نکلا ہے

دروازہ کھلا رکھنا 
ہاں تھام محبت کی گر تھام سکے ڈوری
ساجن ہے تیرا سجنا اب تجھ سے تو کیا چوری
یہ جس کی منادی ہے بستی میں تیری گوری

دروازہ کھلا رکھنا
شکووں کو اٹھا رکھنا، آنکھوں کو بچھا رکھنا
اک شمع دریچے کی چوکھٹ پہ جلا رکھنا
مایوس نہ پھر جائے، ہاں پاسِ وفا رکھنا

دروازہ کھلا رکھنا
دروازہ کھلا رکھنا

ابن انشا

No comments:

Post a Comment