انتظار
گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مِرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں تِرے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
اداس آنکھوں تِری دید کوترستی ہیں
بہارِ حسن، پہ پابندئ جفا کب تک؟
یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟
قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا دعوئ صبرو شکیب، آ جاؤ
قرارِ خاطرِ بیتاب، تھک گیا ہوں میں
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment