Thursday, 30 October 2014

جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا

جسے پہلو میں رہ کر درد حاصل ہو نہیں سکتا
اسے دل کون کہہ سکتا ہے، وہ دل ہو نہیں سکتا
زمیں و آسماں کا فرق ہے دونوں کی فطرت میں
کوئی ذرّہ چمک کر ماہِ کامل ہو نہیں سکتا
محبت میں تو بس دیوانگی ہی کام آتی ہے
یہاں جو عقل دوڑائے، وہ عاقل ہو نہیں سکتا
پہنچتے ہیں، پہنچنے والے اُس کوچے میں مر مر کر
کوئی جنّت میں قبل از مرگ داخل ہو نہیں سکتا
نہیں جب اذنِ سجدہ ہی تو یہ تسلیم کیونکر ہو
مرا سر تیرے سنگ ِدر کے قابل ہو نہیں سکتا
مرا دل اور تم کو بھول جائے، غیر ممکن ہے
تمہاری یاد سے دم بھر یہ غافل ہو نہیں سکتا
مرا ایمان ہے اُن پر، مجھے اُن سے محبت ہے
مرا جذبہ، مرا ایمان، باطل ہو نہیں سکتا
جو رونق آج ہے، وہ آج ہے، کل ہو نہیں سکتی
ہمارے بعد پھر یہ رنگِ محفل ہو نہیں سکتا
نصیرؔ اب کھیلنا ہے بحرِ غم کے تیز دھارے سے
سفینہ زیست کا ممنونِ ساحل ہو نہیں سکتا

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment