محبتوں کا سفر کس قدر کڑا ہوا ہے
مگر یہ دل کہ اسی بات پر اڑا ہوا ہے
گزر گئے مِرے دل سے وہ نخوتوں کے تیر
اک التفات کا نیزہ مگر گڑا ہوا ہے
مکیں بچا نہ کوئی اور اس حویلی میں
بس اک فسردہ شجر صحن میں کھڑا ہوا ہے
نکل ہی آئے گی صورت مصالحت کی کوئی
وہ اعتماد ابھی بیچ میں پڑا ہوا ہے
مجھے عزیز ہے یوں بھی یہ آئینہ دل کا
تِرا ہے اور مِری دیوار میں جڑا ہوا ہے
ہوا کے رخ پہ اڑانے لگا ہے جو سجادؔ
یہ وسوسہ بھی تِرے پیڑ سے جھڑا ہوا ہے
مگر یہ دل کہ اسی بات پر اڑا ہوا ہے
گزر گئے مِرے دل سے وہ نخوتوں کے تیر
اک التفات کا نیزہ مگر گڑا ہوا ہے
مکیں بچا نہ کوئی اور اس حویلی میں
بس اک فسردہ شجر صحن میں کھڑا ہوا ہے
نکل ہی آئے گی صورت مصالحت کی کوئی
وہ اعتماد ابھی بیچ میں پڑا ہوا ہے
مجھے عزیز ہے یوں بھی یہ آئینہ دل کا
تِرا ہے اور مِری دیوار میں جڑا ہوا ہے
ہوا کے رخ پہ اڑانے لگا ہے جو سجادؔ
یہ وسوسہ بھی تِرے پیڑ سے جھڑا ہوا ہے
سجاد بلوچ
No comments:
Post a Comment