Tuesday 28 October 2014

دریچہ گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں

دریچہ

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم
کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو میں‌غرق مرے غمکدے میں‌ آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں

منٹگمری جیل دسمبر ۵۴ء

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment