Tuesday 28 October 2014

بات بس سے نکل چلی ہے

بات بس سے نکل چلی ہے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبیعت بہل چلی ہے
اشک خونناب ہو چلے ہیں
غم کی رنگت بدل چلی ہے
یا یونہی، بجھ رہی ہیں شمعیں
یا شبِ ہجر ٹل چلی ہے
لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے
جاؤ اب سو رہو ستارو
درد کی رات ڈھل چلی ہے

منٹگمری جیل ۲۱۔ نومبر ۵۳ء

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment