یہ کون آیا
انشاؔ جی یہ کون آیا، کس دیس کا باسی ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے، آنکھوں میں اداسی ہے
خوابوں کے گلستاں کی خوشبوئے دلآرا ہے
یا صبح تمنا کے ماتھے کا ستارا ہے
ترسی ہوئی نظروں کو اب اور نہ ترسا رے
رمنا دلِ انشاؔ کا اب تیرا ٹھکانہ ہو
اب کوئی بھی صورت ہو، اب کوئی بہانہ ہو
خاکسترِ دل کو ہے پھر شعلہ بجاں ہونا
حیرت کا جہاں ہونا، حسرت کا نشاں ہونا
اے شخص جو تو آ کر یوں دل میں سمایا ہے
تو درد کہ درماں ہے، تو دھوپ کہ سایا ہے
نیناں ترے جادو ہیں، گیسو ترے خوشبو ہیں
باتیں کسی جنگل میں بھٹکا ہوا آہو ہیں
مقصودِ وفا سن لے، کیا صاف ہے سادہ ہے
جینے کی تمنا ہے، مرنے کا ارادہ ہے
ابن انشا
No comments:
Post a Comment