Friday 31 October 2014

یہ کون آیا انشا جی یہ کون آیا کس دیس کا باسی ہے

یہ کون آیا

انشاؔ جی یہ کون آیا، کس دیس کا باسی ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے، آنکھوں میں اداسی ہے
خوابوں کے گلستاں کی خوشبوئے دلآرا ہے
یا صبح تمنا کے ماتھے کا ستارا ہے
ترسی ہوئی نظروں کو اب اور نہ ترسا رے
اے حسن کے سوداگر، اے روپ کے بنجارے
رمنا دلِ انشاؔ کا اب تیرا ٹھکانہ ہو
اب کوئی بھی صورت ہو، اب کوئی بہانہ ہو
خاکسترِ دل کو ہے پھر شعلہ بجاں‌ ہونا
حیرت کا جہاں ہونا، حسرت کا نشاں ہونا
اے شخص جو تو آ کر یوں دل میں سمایا ہے
تو درد کہ درماں‌ ہے، تو دھوپ کہ سایا ہے
نیناں ترے جادو ہیں، گیسو ترے خوشبو ہیں
باتیں کسی جنگل میں بھٹکا ہوا آہو ہیں
مقصودِ وفا سن لے، کیا صاف ہے سادہ ہے
جینے کی تمنا ہے، مرنے کا ارادہ ہے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment