Thursday 30 October 2014

چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر

چہچہاتی چند چڑیوں کا بسر تھا پیڑ پر
میرے گھر اک پیڑ تھا اور ایک گھر تھا پیڑ پر
موسمِ گُل تو نے سوچا ہے کہ اس کا کیا بنا
تیرے لمسِ مہرباں کا جو اثر تھا پیڑ پر
اب ہوا کے ہاتھ میں تو اک تماشا بن گیا
زرد سا پتّا سہی، میں معتبر تھا پیڑ پر
پر سمیٹے میں افق پر دیکھتا تھا دیر تک
پیش بینی تھی پرندے کی، مگر تھا پیڑ پر
اس لیے میرا پرندوں سے لگاؤ ہے بہت
میں بھی تو کوئی زمانہ پیشتر تھا پیڑ پر
اس دفعہ تو فصلِ گُل کے ساتھ آئیں آندھیاں
اُڑ گیا سب جو مِرے خوابوں کا زر تھا پیڑ پر

سجاد بلوچ

No comments:

Post a Comment